Add To collaction

لیکھنی ناول -17-Oct-2023

وہ ہی کہانی پھر سے از قلم ہاشمی ہاشمی قسط نمبر13

وہ دونوں روم میں ائے تو نور زمیں پر بیٹھی تھی بلال اس کے پاس ایا نور یہاں کیوں بیٹھی ہے آپ بلال نے پوچھا بھائ آپ بیٹھ جاے نور نے جواب دیا تو نور درمیان میں تھی اور ایک سائیڈ پر بلال بیٹھ گیا اور دوسری پر شاہ کچھ دیر روم میں خاموش رہی پھر نور نے آغاز کیا میں آپ لوگوں کو کچھ بتانا چاھتی ہوں جب تک میری بات پوری نہیں ہوتی کوئی کہی نہیں جائے گا "میرے بابا کی ایک بہن تھی یعنی میری پھوپھو ان کا ایک بیٹا تھا جو کہ مجھے سے سات سال بڑھا تھا اس کا نام طاہر تھا جب ماں اور بابا نے فصیلہ کیا کہ وہ مجھے اپنی بیٹی بنائے گیا تو پھوپھو نے بہت باتے کی کہ پتا نہیں میں کس کا خون ہو وغیر وغیر لیکن بابا اور ماں کو خوش دیکھا کر وہ کبھی کبھی چپ بھی کر جاتی کیونکہ جیتنی محبت بابا پھوپھو سے کرتے تھے اتنی ہی محبت پھوپھو بابا سے کرتی تھی وقت کا کام ہے گزرانا اور وہ گزار میری اور طاہر کی کبھی بنی نہیں وجہ وہ بڑھ تھا اور مجھے ہر وقت مارتا تھا اور میں ڈدر جاتی تھی یہ بات میری ماں نے نوٹ کی وہ مجھے بہاد بنا چاھتی تھی میں پانچ سال کی ہو گئی اور ایک دن طاہر کی اور میری لڑئی ہوئی تو طاہر نے مجھے مارنا شروع کر دیا لیکن اس بارے میں ڈدری نہیں اور اس کا مقابلہ کیا وہ حیران ہوا پھر پھوپھو آگئی اپنے بیٹا کو مجھے سے مار کھاتے دیکھ کر انہوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا لیکن کچھ وقت بعد ہی بابا گھر آئے اور مجھے انہوں نے پھوپھو سے بچیا کیونکہ پھوپھو ماں کی کوئی بات نہیں سن رہی تھی تو پھوپھو نے مجھے برا بھال کہا شروع کر دیے جاتے ہوے وہ بولی کہ میں" کیسی کی ناجائز اولاد ہو " رات کو میں نے بابا سے پوچھا کہ ناجائز کیا ہوتا ہے پہلے تو بابا خاموش رہے لیکن پھر انہوں نے کہا میں ان کی بیٹی نہیں ہوں ایک رات ایک پری ائی تھی ان کے پاس اس نے آپ کو مجھے دیے اور کہا ایک دن وہ واپس آگئی آپ کو یہاں سے لے جائے گئی بابا نے ایک کہانی سنی جس کو سن کر میں خوش ہو گئی کہ میں ایک پری کی بیٹی ہو لیکن اداس بھی ہوئی ماں بابا کی وجہ سے اور آپ کو پتا انہوں نے مجھے یہ کہانی کیوں سنی کیونکہ ان کو پتا تھا کہ دنیا والے مجھے اس نام سے ہی پکارے گئے کچھ سال اور گزراے میں ۱۲ سال کی ہو گئی اس دوران پھوپھو کبھی بہت اچھی بن جاتی تو کبھی مجھے پر غصہ کرتی لیکن ایک جملہ میں نے اس دنیا سے سنا کہ "میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو" ایک دن میں سکول سے گھر ائی تو گھر پر تالہ لگا تھا مجھے حیرات ہوئی بابا تو کام پر تھے لیکن ماں وہ کہاں جا سکتی ہے؟؟؟ تو میں ساتھ والے گھر چلی گئی جوکہ پھوپھو کا تھا گھر پر طاہر موجود تھا میں نے اس سے ماں کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ پھوپھو کی طعبیت اچانک خراب ہوئی اور ماں ان کو ہپستال لے کر گئی ہے طاہر سے میں نے اپنے گھر کی چابی مانگئی تو اس نے کہا کہ چابی اس کے پاس نہیں ہے میں تھوڑی حیران ہوئی کہ ماں چابی کیوں نہیں دے کر گئی ؟؟؟ طاہر نے مجھے اندر انے کو کہا اور میں کشمش میں تھی اندر جاو کہ نہیں کیونکہ ماں نے مجھے منع کیا تھا کہ طاہر کے ساتھ بیٹھنے کو طاہر مجھے پریشان دیکھا کر ہسنا اور اندر چلا گیا باہر بہت گرمی تھی سو میں گھر کے اندر آگئی یہ جانے بغیر کے اندر ہونے کیا والا ہے اب میں روم میں تھی ابھی میں چارپئی پر بیٹھی ہی تھی کہ اچانک روم کا درواذ بند ہو گیا اور بند کرنے والا طاہر تھا طاہر یہ کیا کر رہے ہوں میں نے پوچھا تو وہ مجھے سے عجیب بے داہ باتے کرنے لگا اب وہ آہستہ آہستہ میری طرف ارہا تھا میں نے اب وہ بات کر رہی تھی کہ بلال بولا بس بس نور ایک الفاظ اور نہیں جبکہ نور نے بلال کی طرف دیکھا میں نے کیا کہا تھا بھائ جب تک میری بات مکمل نہیں ہوتی کوئی کچھ نہیں کہ گا تو بلال اس کی بات پر بے بس ہو گیا نور نے ایک بار بلال کو دیکھا اور ایک بار شاہ کو جس کہ چہرہ پر سنجیدگئی تھی مجھے پہلے خیال پری کا ایا میں نے مدر کے لیے پری کو پکارا لیکن وہ ہوتی تو آتی پھر بابا پھر ماں سب کو پکارا میں نے طاہر سے کہا پلیز مجھے جانے دیے میں اس کے پاوں پری نہیں وہ کچھ سنے کو تیار نہیں تھا اس ہی وقت بابا روم میں ائے مجھے نہیں پتا کہاں سے لیکن وہ ائے میں بھاگ کر بابا کے سینے لگئی بابا پریشان ہوے مجھے اس حالت میں دیکھا کر کچھ وقت میں ہی بابا کو سمجھ آگئی کہ یہاں ہو کیا رہا تھا تو بابا نے طاہر کو مارنا شروع کر دیا اس ہی وقت پھوپھو اور ماں گھر ائی ماں پریشان سی ان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہاں ہو کیا رہا ہے لیکن پھوپھو دو منٹ میں سمجھ گئی میں حالت دیکھا کر سو پھوپھو نے مجھے مارنا شروع کر دیا اور پھوپھو نے کہا یہ اس لڑکی کے خون کا اثر ہے جو آج یہ کر رہی ہے پتا نہیں یہ کس کا گندہ خون ہے ایسی لڑکیوں کو گھر میں نہیں رکھا جاتے اس کو کیسی کوٹھے پر ہونا چاہی پھوپھو کے الفاظ مجھے پر کیسی بم کی طرح گرے اس ہی وقت طاہر پھوپھو سے بولا ماما میں نے اس کو اس کے گھر کی چابی دی تھی تو یہ بولی مجھے اپنے گھر میں اکیلے ڈدر لگتا ہے تو کیا میں اندر اجاو پھر یہ میرے قریب ائی میں نے کہا یہ سب غلط ہے تو یہ بولی کہ یہ مجھے سے محبت کرتی ہے بس پھر کیا اس خود کی یہ حالت بنا لی اور پھر ماموں اگئے تو اس نے یہ ڈرامہ شروع کر دیا جبکہ پھوپھو نے طاہر کو سینے سے لگ لیا اور میں اپنی صافئ میں کچھ نہیں بول پائی بابا میرے پاس ائے انہوں نے مجھے دیکھا اور مجھے لگا کہ اب وہ مجھے پر یقین نہیں کرے گئے بابا نے مجھے پر اپنا پرنا دیے اور طاہر سے کہا اگر یہ بات مجھے خود نور بھی کہ کہ یہ سب سچ ہے تو میں اس پر یقین نہیں کرو گا چلو نور بابا نے کہا جو کہ میں حیرات سے بابا کو دیکھ رہی تھی پھر رات کو میں نے بابا کو ساری بات بتائی میری بات سن کر ماں اور بابا دونوں رونے لگے کچھ دیر ہم لوگ روتے رہے پھر بابا بولے نور مجھے معاف کر دو میں تمہاری حفاطت نہیں کر سکا ان کی بات سے سن کر میں تڑپ گئی پھر یہ بات پورے محلہ میں پھپل گئی لوگ پہلے ہی مجھے پتا نہیں کیا کیا کہتے تھے اب ان کو اور مکا مل گیا باتے کرنا کو سو بابا نے وہ محلہ چھوڑ دیا پھر ہم نئے محلہ میں اگئے اس سے کا مجھے پر بہت اثر ہوا میں نے مسکرانے چھوڑ دیا میں زندگی جینا بھول گئی لیکن ماں اور بابا کو میری حالت پر افسوس ہوتا وقت دنوں میں بدلہ اور دن ماہنوں میں بدلہ اور ماہ سالوں میں لیکن ایک چیز وہی رہی وہ تھا ایک جملہ کہ "میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو " جو اکثر مجھے سنے کو ملا تھا لیکن اس جملہ کو میں نے اپنی طاقت بنایا نہ کہ کمزوری لیکن اس سب میں مجھے اس پری سے نفرت ہو گئی اور ان لوگوں سے بھی جنہوں نے مجھے پیدا کیا تھا پھر وارث نے مجھے اغوہ کیا مجھے سے نکاح کیا آپ جانتے ہے وارث میں نے آپ سے نکاح کیوں کیا اب نور وارث سے مخاطب ہوئی اور وارث نے نفی میں سر ہلایا کیونکہ کہ میں نے آپ کی آنکھوں میں اپنے لیے غرت دیکھی احترام دیکھا تھا پھر توحید سر کا مجھے اغوہ کرنا میرے لیے توحید سر طاہر جیسے تھے میں نے ان کی آنکھوں میں ہوس دیکھی تھی لیکن اپنی ضد کی وجہ سے ان سے منگنی کرنے کے لیے تیار ہوئی لیکن میں کبھی ان سے شادی نہیں کرتی بابا نہیں رہے میں اس گھر میں ائی یہاں ہر وقت مجھے کچھ عجیب سا لگتا حاص کر جب میں آنٹی انکل اور بلال بھائ کو دیکھتی لیکن مجھے میرا وہم لگا پھر اس دن مجھے پتا کہ میں احمد شاہ کی اولاد ہو میں دل کیا کہ یہاں سے بھاگ جائے یا مر جائے جن لوگوں سے میں نفرت کرتی ہو میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی لیکن اس دن میرے سر سے خون نکال رہا تھا اور بھائ رو رہے تھے بھائ کو دیکھ کر مجھے کچھ ہوا صرف بھائ کی وجہ سے میں نے اپنے دل کو سمجھیا اور پھر بابا کا وعدہ یاد ایا کہ مجھے آپ کو اپنا شوہر تسلم کرنے ہے آپ نے مجھے سچ نہیں بتایا وارث لیکن پھر بھی میں نے آپ کو معاف کیا ایک اور مکا دیا لیکن اس دن میں نے بھائ اور آنٹی کی بات سن لی مجھے لگ اب سانس نہیں ائے گا اور وہی ہو وارث مجھے اس گھر میں نہیں رہنا میں جب بھی ان دونوں کو دیکھتی ہو مجھے وہ سب یاد آتا ہے میں مر جاو گئی وارث میں اس گھر میں نہیں رہنا نور نے کہا اور رونے لگئ اس کو روتے دیکھ کر شاہ نے اپنے ساتھ لگیا اور بلال ضبظ کرتے روم سے باہر چلا گیا


وہ بہت دیر تک روتی رہی تو وارث. نے بھی اس کو رونے دیا لیکن خود سے وعدہ کیا کہ آج کے بعد وہ اس کو رونے نہیں دے گا لیکن جو انسان سوچتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے ہم اپنی طرف سے بہت پلین بناتے ہے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے شائد نور کی قسمت میں ابھی بہت رونا تھا وارث میں بہت بری ہوں میں اچھی بیوی ثابت نہیں ہوئی میں آپ کو آپ کے گھر والوں سے کبھی الگ نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن میں نے بہت کوشش کی اور اب اس فصیلہ پر پوچھی ہوں مجھے اس گھر میں نہیں رہنا وارث میں نے کبھی بیوی ہونے کے حقوق و فرائض ادا نہیں کیے نور وارث سے الگ ہو کر بولی جبکہ وارث اس کی بات سن کر حیران ہوا پتا نہیں یہ لڑکی کیا کیا سوچتی ہے پاگل وارث نے سوچا نور آپ کو پتا ہے میں نے آپ سے نکاح کیوں کیا وارث نے پوچھا تاکہ آپ مجھے سر توحید سے بچا سکے نور نے کہا نہیں نور میں نے جو آپ کو پہلی بارا دیکھا پتا نہیں کیوں آپ مجھے اچھی لگئی جبکہ آپ نے مجھے سے بہت بدتیمزی کی تھی لیکن پھر مجھے پتا چلا کہ توحید نے راشتہ بیجا ہے تو مجھے بہت غصہ ایا جو کہ میں خود سمجھنے سے قاصر تھا اس لیے آپ کے پاس ایا کہ آپ توحید سے دور رہے جبکہ مجھے پتا تھا کہ آپ توحید کو منع کر چوکی ہے لیکن آپ نے ضد میں اکر توحید کو ہاں کی اس ہی دن میں نے فصیلہ کیا کہ میں آپ سے نکاح کرو گا اس دن مجھے یہ بھی پتا چلا کہ آپ میری کزن ہو سو میں نے بلال سے کہ کر آپ کو اغوہ کرویا لیکن اس کو پتا نہیں تھا کہ آپ اس کی ڈول ہو بلال نے مجھے بہت رکا کہ میں کیسی لڑکی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہو لیکن میرے سر پر بس ایک جنون تھا کہ مجھے آپ سے نکاح کرنا ہے لیکن اس دن آپ کا اکیسڈنٹ ہوا میں ڈدر گیا نور مجھے لگا میں نے آپ کو کھود دیا ہے تب مجھے احساس ہوا کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے وقت کے ساتھ میری محبت بڑھ گئی شاہ اس سے اظہار محبت کر رہا تھا جبکہ نور شاک سی اس کو دیکھ رہی تھی شاہ اٹھا اس کو بھی اٹھیا وہ نور کو لیے کر آئینہ کے پاس ایا نور دیکھے وارث نے اس کو اپنا عکس دیکھنے کو کہا یہ تو نہیں ہے میری نور جس کی آنکھیں مجھے بہت پسند ہے جو مسکراتی ہے تو میری دنیا بدل جاتی ہے جب وہ غصہ کرتی ہے تو اس کی چھوٹی سی ناک لال ہو جاتی ہے جو مجھے بہت پسند ہے شاہ نے نور کی ناک دانتے ہوے کہا جو کبھی کیسی کے سامنے روتی نہیں ہے نور آپ مجھے روتی ہوئی اچھی نہیں لگتی اور رہی بات اس حق کی جو میں نے ابھی تک استعمال نہیں کیا تو میں آپ کو وقت دیے رہا تھا جس دن مجھے لگ کہ آپ نے یہ شادی دل سے قبول کر لی ہے اس دن میں اپنا حق وصول کر لو گا شاہ نے آنکھیں میں شرارت لاتے ہوے معنی خیز بات کی اس کی بات سن کر نور شرمندہ ہوئی اور اس کے چہرہ پر حیا کے زنگ ائے میرے کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا نور نے جلدی سے کہا کیونکہ اس کو شاہ سے اتنی بے باکی کی امید نہیں تھی لیکن میرے کہا نے کا یہ ہی مطلب ہے وہ ڈھٹی سے بولا اور اپنی پیشانی اس کی پیشانی سے کٹئی نور جب آپ کو لگئے کہ آپ کا سانس بند ہو جائے گا وہ میں آپ کا آکسیجن ماسک بنو گا جب آپ کو لگئے کہ آپ اپنے ماضی کو بھول نہیں رہی یا آپ کو وہ سب یاد ارہا ہے تو آپ مجھے سوچتے مجھے یقین ہے آپ سب بھول جائی گئی شاہ نے کہا جو ہو گئے وہ ماضی تھے اب آپ مستقبل کے بارے میں سوچے جو کہ بہت رواشن ہے شاہ نے کہا اور اس کے ہونٹوں پر جھکا روم میں ایک معنی خیز خاموشی ہوئی پھر کچھ وقت کے بعد وارث اس سے الگ ہوا جاے اب منہ دھو کر ائے جلدی سے وارث نے کہا کیونکہ وہ بہت روئی تھی اس کی وجہ سے نور کی آنکھیں لال تھی اور ابھی جو وارث نے حرکت کی اس سے اس کا چہرہ بھی لال ہو گیا


بلال ضبط کرتا ہوا حریم کے روم میں ایا اس کے ذاہین میں ایک ہی بات گھم رہی تھی مجھے یہاں نہیں رہنا میں مر جاو گئی جو کہ نور بول رہی تھی وہ روم میں ایا تو حریم سو رہی تھی جبکہ احمد روم میں نہیں تھا ہمیشہ کی طرف سٹدی میں بلال چلتا ہوا حریم کے پاس ایا اور اس کے پاوں پر اپنا سر رکھا دیا اور بے آواز رونے لگا کچھ احساس کے باعث حریم کی آنکھ کھولی بلال کو دیکھا کر وہ چونکی بلال کیا بات ہے حریم نے پوچھا اس کو اٹھتے دیکھ کر بلال نے اپنے آنسو صاف کیے کچھ نہیں ماما بس آیک برا خواب دیکھا تھا بلال کے خود پر کنٹرول کرتے چھوٹ بولا اللہ غیر اوپر او بلال حریم نے کہا تو بلال حریم کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا تو حریم مسکرائ دی اور اس کے سر پر ھاتھ پھیلنے لگئی کچھ وقت خاموشی رہی ان کے درمیان پھر بلال بولا ماما ہماری آزمائش کب ختم ہو گئی کب ہم سب خوش رہے گئے کب ڈیڈ اور آپ کے درمیان سب ٹھیک ہو گا کب ڈول آپ کو ماما کہے گئی کب ہماری فمیلی مکمل ہو گئی بلال نے ایک ہی سانس میں اتنے سوال کر دیے اب حریم پریشان ہو گئی کیونکہ کبھی حریم اور احمد نے اس کو احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ ان دونوں کے درمیان کچھ ٹھیک نہیں ہے بلال یہ کسی باتے کر رہے ہو تم میرے اور آپ کے ڈیڈ میں سب ٹھیک ہے اور یہ فضول بات تم سے کیسی سے کی ہے ماما پلیز میں بچا نہیں ہو بلال اس کے جھوٹ پر کسا گیا اس ہی وقت سٹدی کا درواذ کھولا اور احمد باہر آیا وہ بلال کو دیکھ کر چوکا پھر اس کے پاس ایا بلال بیٹا طعبیت ٹھیک ہے آپ کی احمد نے اس کی سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں دیکھا کر پوچھا ائے مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے بلال نے کہا ڈیڈ ماما کا کہاں قصور تھا کیا غلطی تھی ان کی بیس سال ہو گئے ڈیڈ بیس سال لیکن آپ کی ضد آپ کی آنا وہی ہے آپ نے بہت بڑی سزا کی دی ماما کو جبکہ ان کی کوئی غلطی نہیں تھی بلال نے کہا جبکہ حریم اور احمد شاکڈ تھے بلال کیسی باتے کر رہے ہو وہ ڈیڈ ہے تمہارے اور تم ان سے کوئی سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے حریم نے کہا واہ واہ ماما آپ صیح مشرقع عورت کی طرف ہے بس شوہر جو مزی کرے اس سے کوئی سوال نہیں پوچھے آپ جو بیس سالوں سے ہیپی کپل ہونے کا ٹانک کر رہے ہے بس کر دیے یہی احمد کی برداشت جواب دے گئی اور اس کا ہاتھ ہوا میں بلال احمد نے کہا جی رکے کیوں گیا مارے مجھے ڈیڈ یہ تو غلطی ہے میری کہ آپ کو میں نے آئینہ دیکھا ہے آج بلال نے کہا آج پہلی بار احمد نے بلال پر ھاتھ اٹھنے کی کوشسش کی تھی حریم اور احمد نے شروع سے ہی بلال کو بہت محبت دی بس بہت سن لی میں نے تمہاری بکوس بند کرو یہ سب وارنہ مجھے سے برا کوئی نہیں ہو گا احمد نے کہا ڈیڈ آپ سے برا کوئی ہے بھی نہیں بلال نے کہا جبکہ اب کی بار حریم اور احمد پریشان ہوگئے آج سے پہلے بلال نے کبھی ایسے باتے نہیں کی تھی وہ تو شروع سے ہی اچھا بچا تھا کبھی کیسی سے بدتیمزی نہیں کی تھی احمد چپ کر کے روم سے باہر چلا گیا جبکہ حریم پریشان کبھی بلال کو دیکھتی تو کبھی درواذ کو جس سے احمد باہر گیا تھا


نور واپس ائی اور بیڈ پر بیٹھ گئی جبکہ وارث فریش ہونے چلا گیا واپس ایا تو نور زمیں کو گھور رہی تھی شاہ چلاتا ہوا اس کے پاس ایا نور شاہ نے اس کو مخاطب کیا وارث نور نے کہا جی میری جان وارث نے جواب دیا بھائ مجھے سے ناراض ہو گئے ہے نور نے اس کی جان والی بات کو نظراندرذ کرتے ہوے کہا تو وارث نے گہرا سانس لیا اور نور کو بیڈ لیٹیا اور خود بھی لیٹ گیا ہاں یہ تو ہے نور آپ کو پتا ہے بلال نے پہلا لفظ کیا بولا تھا وارث نے پوچھا نہیں نور نے جواب دیا پھر بھی گریس کرے وارث نے کہا شائد ماں نور نے کہا کیونکہ بچا پہلا لفظ ماں ہی بولتا ہے نہیں بلال نے پہلا لفظ ڈول بولا جب وہ اٹھ سال کا ہوا تو اس کو پتا چل کہ اس کی زندگی میں ایک ڈول انے والی ہے وہ بہت خوش ہوا لیکن جب وہ ۱۲ سال کا ہوا تو اس نے گھر میں کیسی سے سن لیا کہ اس کی ڈول دنیا میں تو ائی لیکن گم ہو گئی اس دن وہ بہت رویا چھوٹی ماں اور چھوٹے پاپا نے اس کو چپ کرونے کی بہت کوشش کی لیکن وہ چپ نہیں ہوا پھر میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں اس کی ڈول کو واپس لائیں گا تو وہ چپ ہوا لیکن جس دن اس کو میں نے بتایا کہ جو لڑکی اس نے اغوہ کی تھی وہ اس کی ڈول تھی اس دن بلال نے مجھے بہت مارا اور بہت دن مجھے سے ناراض رہا اور آج آپ کہ رہی ہو کہ آپ کو اس گھر میں نہیں رہنا تو ناراض ہونے کا تو اس کا حق بناتا ہے شاہ نے کہا جبکہ نور شاہ کی بات سن کر حیران ہوئی کیا اس کا بھائ اس یہ اتنی محبت کرتا ہے نور نے خود سے سوال کیا اس کا جواب ہاں میں ایا۔۔۔۔

   0
0 Comments